ثنا کی مجھ کو ملے روشنی کبھی نہ کبھی

ثنا کی مجھ کو ملے روشنی کبھی نہ کبھی

رواں دواں ہو مری آگہی کبھی نہ کبھی


طوافِ خضرٰی جو میری نظر کرے عاجز

بھلی لگے گی اُنہیں عاجزی کبھی نہ کبھی


اگر نہیں ہے محبت رسولِ اکرم کی

’’ضرور دے گی دغا زندگی کبھی نہ کبھی‘‘


مجھے عطا ہو خدارا ضیا کا ہر لمعہ

یہ دور ہوگی مری تیرگی کبھی نہ کبھی


زمین طیبہ کی چوموں قدم قدم پہ مگر

دکھائے مجھ کو مری عاشقی کبھی نہ کبھی


لکھوں گا شاہِ مدینہ کا میں درود و سلام

مرے سخن کو ملے تازگی کبھی نہ کبھی


کبھی تو نقشِ کفِ پا کو چوم لوں قائم

زباں پہ رقص کرے چاشنی کبھی نہ کبھی

شاعر کا نام :- سید حب دار قائم

کتاب کا نام :- مداحِ شاہِ زمن

دیگر کلام

ثنا ان کی ہر دم زباں پر رہے گی

مدینہ شہر کے مالک مجھے خاکِ مدینہ دے

دل سے تڑپ کے نکلیں صدائیں مرے نبی

دل کشا، دل ربا دل کشی ہو گئی

الہامِ نعت ہوتا ہے چاہت کے نور سے

ابتدا انتہا سروری پرکشش

سخن با آبرو ہو جائے تو پھر نعت ہوتی ہے

عندلیبِ خیال آپ سے ہے

ذکرِ بطحا نہیں سناتے ہو

دیکھتی رہ گئیں سماں آنکھیں