ترے عاشقوں کا ہے عاشق زمانہ

ترے عاشقوں کا ہے عاشق زمانہ

فقیروں کے انداز بھی خسروانہ


شہا، میری آنکھوں میں آنسو نہیں ہیں

یہ کشت جدائی کا ہے آبیانہ


زباں پر ہیں تیری محبت کے دعوے

مگر اپنے کردار ہیں باغیانہ


ترے راستوں میں فنا ہونے والے

عبادت بھی کرنے لگے تاجرانہ


جو کرتے ہیں دنیا کی منصوبہ بندی

وہ ہیں اپنی ہی سازشوں کا نشانہ


وہ خائف ہیں باطل کی چنگاریوں سے

بناتے تھے جو برق پر آشیانہ


بد ن ایک چہرے ہیں دو دو ہمارے

سخن نا صحانہ عمل غاصبانہ


نکلنا ہے آقا ہمیں سب سے آگے

ہمیں کیجئے سوئے ماضی روانہ

شاعر کا نام :- مظفر وارثی

کتاب کا نام :- میرے اچھے رسول

دیگر کلام

یا محمدؐ انتخاب کبریا تم پر سلام

درد ان کا محبت کے بازار سے

جب زباں رحمت عالم کی ثنا کرتی ہے

میں اپنے آپ کو جب ڈھونڈتا ہوا نکلا

مرے کام آگئی زندگی مجھے

خاک آدم خدا کا نور حضورؐ

وہ دن بھی تھے کہ سرابوں کا نام

حضورؐ پر ہوئیں اللہ کی رحمتیں صدقے

خمیر حضرت آدم ابھی نہ اٹھا تھا

بقول مائیکل ایچ ہاٹ ، پہلے نمبر کی