اُمنگیں جوش پر آئیں اِرادے گدگداتے ہیں

اُمنگیں جوش پر آئیں اِرادے گدگداتے ہیں

جمیلِ قادری شاید حبیبِ حق بلاتے ہیں


جگا دیتے ہیں قسمت چاہتے ہیں جس کی دَم بھر میں

وہ جس کو چاہتے ہیں اپنے روضے پر بلاتے ہیں


انہیں مل جاتا ہے گویا وہ سایہ عرشِ اعظم کا

تری دیوار کے سایہ میں جو بستر جماتے ہیں


مقدر اس کو کہتے ہیں فرشتے عرش سے آکر

غبارِ فرشِ طیبہ اپنی آنکھوں میں لگاتے ہیں


خدا جانے کہ طیبہ کو ہمارا کب سفر ہوگا

مَدینے کو ہزاروں قافلے ہر سال جاتے ہیں


شہِ طیبہ یہ قوت ہے ترے دَر کے گداؤں میں

جلا دیتے ہیں مردوں کو وہ جس دم لب ہلاتے ہیں


مرے مولیٰ یہ قوت ہے ترے دَر کے گداؤں میں

وہ جس کو چاہتے ہیں شاہ دَم بھر میں بناتے ہیں


مَدینے کی طلب میں جو نہیں لیتے ہیں جنت کو

انہیں تشریف لا کر حضرت رضواں مناتے ہیں


تصدق جانِ عالم اس کریمی اور رحیمی کے

گنہ کرتے ہیں ہم وہ اپنی رحمت سے چھپاتے ہیں


وَہابی قادیانی گاندھوی و نیچری سب کی

خبر لینا یہ ہر دَم اہلسنّت کو ستاتے ہیں


جمیلؔ قادری کو دیکھ کر حوروں میں غل ہوگا

یہی ہیں وہ کہ جو نعتِ حبیبِ حق سناتے ہیں

شاعر کا نام :- جمیل الرحمن قادری

کتاب کا نام :- قبائلۂ بخشش

دیگر کلام

اَفلاک سے اُونچا ہے ایوان محمد کا

اُس کو کب ہو گل و گلزار عزیز

ایسی قدرت نے تیری صورت سنواری یارسول

اے شہنشاہِ مدینہ اَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام

اے شکیبِ جانِ مضطر رحمۃٌ لِّلْعالَمیں

اے دِل تو دُرُودوں کی اَوّل تو سجا ڈالی

اَحمد کی رضا خالق عالم کی رضا ہے

بیاں تم سے کروں کس واسطے میں اپنی حالت کا

بِحَمْدِ اللہ عَبْدُ اللہ کا نورِ نظر آیا

باغِ دو عالم دم سے تمہارے ہے گلزار رَسُوْلُ اللہ