وہاں حضور کے خدّامِ آستاں جائیں

وہاں حضور کے خدّامِ آستاں جائیں

جہاں کبھی نہ سلاطین کے گماں جائیں


ہوئے نہ منّتِ اغیار کے کبھی قائل

’’فقیر آپ کے در کے ہیں ہم کہاں جائیں‘‘؟


ثنائے صاحبِ خلقِ عظیم کا ہے اثر

کہ آئیں خوبیاں ناعِت میں ، خامیاں جائیں


ترے غلام کلیمی کے بِن ترے صدقے

بناتے راستے دریا کے درمیاں جائیں


ثنائے جانِ حلاوت ہے ورد جب اپنا

تو پھر حیات سے کیونکر نہ تلخیاں جائیں


دخولِ خلد سے پھر ان کو کون روکے گا

اگر حضور کہیں بہرِ مجرماں " جائیں "


بس ایک ہی تو درِ رحمتِ جہاں ہے جہاں

سنانے قصّہٕ آلام بے زباں جائیں


عروجِ محفلِ حسان کو نظر نہ لگے

حضور اہل ثنا کی نہ یاریاں جائیں


مشاعروں میں فقط اپنا احترام نہیں

بہ فیضِ نعت معظم ہیں ہم جہاں جائیں

شاعر کا نام :- معظم سدا معظم مدنی

کتاب کا نام :- سجودِ قلم

دیگر کلام

حضور قلب ہے بے چین مجھ سے راضی ہوں !

چشم و لب ہائے نبی کا معجزہ کہنے کو ہیں

مصرعے سارے معرّا ہوں ، الگ سی لِکُّھوں

جانِ جہاں کے دم سے ہی دم ہے رگِ حیات میں

اعجاز مصطفٰی نے کیا کیا دکھادیے ہیں

اصلِ مسجودِ مَلک ، جانِ مہِ کنعان ہو

مہک میں رب نے بسائے رسول کے گیسو

کون جانے شانِ جانِ عظمت و تکریم کو

ہوگے علومِ لوح سے محرم لکھا کرو

آسمانِ نعت پر جس وقت آیا قافیہ