مصرعے سارے معرّا ہوں ، الگ سی لِکُّھوں

مصرعے سارے معرّا ہوں ، الگ سی لِکُّھوں

مدح سرکارِ دو عالم کی وہ عالی لکھوں


مالک الملک کی اَملاک کا مالک ہے وہی

آلِ داؤد کی کُل مِلک اسی کی لکھوں


وہ کہ اسرٰی کو ہوا سارے رسولوں کا امام

کُل عوالِم کا اسے مولا و ھادی لِکھوں


عَلَّمَک سے ہے کُھلا علمِ محمد کا عُلو

علمِ آدم کو عطائے درِ عالی لِکھوں


ہے اسی گل کی مہک سارے گلوں کو حاصل

مہر اور ماہ کو اس مہ کا سوالی لکھوں


ہے کمال اس میں ، اسی واسطے ٹھہرا ہے کمال

کُل کمالوں کی اسے اصلِ کمالی لکھوں


اے مکرم وہ مداوا مرے ہر درد کا ہے

اس کی مداحی کو آلام کی ماحی لکھوں

شاعر کا نام :- معظم سدا معظم مدنی

کتاب کا نام :- سجودِ قلم

دیگر کلام

نام جن کا ہے درِ شاہ کے دربانوں میں

میں کہ سگِ بلال ہوں

ہے ناطِقِ مَا اَوْحٰی اِک تیرا دہن جاناں

حضور قلب ہے بے چین مجھ سے راضی ہوں !

چشم و لب ہائے نبی کا معجزہ کہنے کو ہیں

جانِ جہاں کے دم سے ہی دم ہے رگِ حیات میں

اعجاز مصطفٰی نے کیا کیا دکھادیے ہیں

وہاں حضور کے خدّامِ آستاں جائیں

اصلِ مسجودِ مَلک ، جانِ مہِ کنعان ہو

مہک میں رب نے بسائے رسول کے گیسو