وہی ہے دل جو الفت کے نشے میں چور ہو جائے

وہی ہے دل جو الفت کے نشے میں چور ہو جائے

ہے سجدہ ایک ہی کافی، اگر منظور ہو جائے


اگر قربت میسر ہے تو دل میں عجز پیدا کر

کہیں ایسا نہ ہو، نزدیک ہو کر دور ہو جائے


یہ اس مستِ خرامِ ناز کا ادنیٰ کرشمہ ہے

کہ جس محفل میں بیٹھے وہ، سراپا نور ہو جائے


دل ِ عاشق ہی مرکز ہے قیامت خیز جلووں کا

وہ جس دل میں سما جائیں، وہ رشک ِ طور ہو جائے


انوکھا ہی علاجِ درد ہے اہلِ محبت کا

کہ آئیں اشک آنکھوں میں دل مسرور ہو جائے


ظہوری کا مقدر ہے نبیؐ کے نام کا چرچا

بھلا پھر نام اس کا بھی نہ کیوں مشہور ہو جائے

شاعر کا نام :- محمد علی ظہوری

کتاب کا نام :- توصیف

دیگر کلام

ویرانے آباد نہ ہوتے، ایک جو ان کی ذات نہ ہوتی

ملا نہ سایہ کوئی ان کی رحمتوں کی طرح

نظارے ہیں گو لاکھوں جہاں بھر کے نظر میں

شہنشاہؐ ِ کون و مکاں آ گئے ہیں

محبتوں کے دیے جلاؤ، نبیؐ کی الفت کے گیت گاؤ

دل کی بنجر کھیتی کو آباد کرو

عرشاں فرشاں نوں عقیدت دا ہلارا آیا

عربی سلطان آیا

مرحبا مرحبا آگئے مصطفےٰ

اج آمد ہے اس سوہنے دی جو دو جگ نالوں سوہنا ایں