یادِ نبی کو دِل سے نکالا نہ جائے گا

یادِ نبی کو دِل سے نکالا نہ جائے گا

سینے میں دَرد غیر کا پالا نہ جائے گا


تَب تک نہ جائے گا کوئی جنّت میں دوستو

جب تک بِلال رنگ کا کالا نہ جائے گا


سرحشر جب اُٹھائیں گے چہرے سے وہ نقاب

یُوسف سے بھی پھر ہوش سنبھالا نہ جائے گا


کھاتا ہے جو حُضور کے لنگر کو شوق سے

غَیروں کا اُس کے منہ میں نوالا نہ جائے گا


سارے جہاں کی ٹالے گا روزِ حشر خدا

لیکن کہا حضور کا ٹالا نہ جائے گا


مل جائے گر نصیب سے خاکِ پائے رسول

پھر سُرمہ کوئی آنکھ میں ڈَالا نہ جائے گا


حاکؔم کہوں گا قبر میں مَیں ہُوں حضور کا

جز اِس کے دیا اور حوالہ نہ جائے گا

شاعر کا نام :- احمد علی حاکم

کتاب کا نام :- کلامِ حاکم

دیگر کلام

بھل کے بدکاریاں تے سِیہ کاریا ں

چھڈ دے طبیبا دارو تینوں کی پتا اے

شان مولا کی مُصطفےٰ جانے

جیوں دَرد ونڈ دا اے مدینے دا والی

گلاں بعد چہ بہہ کے کرلاں گے

سوہنا ایں مَن موہنا ایں سوہنا ایں مَن موہنا ایں

پادے آمنہ توں لعل میری جھولی حلیمہ ایہو خیر منگدی

دائیاں دا سوال-حلیمہ دا جواب

جو سامنے ہے مدینہ تو دیکھتا کیا ہے

دنیا میں بس وہ صاحبِ ایمان ہو گیا