جو سامنے ہے مدینہ تو دیکھتا کیا ہے
یہی تو کعبے کا کعبہ ہے سوچتا کیا ہے
مِرے حضور کو اَے خُود سا بولنے والے
تو اُن کی ذات کے بارے میں جانتا کیا ہے
بروزِ حشر خُدایوں کہے گا بندوں سے
جو مُصطفےٰ کو نہ مانے وہ مانتا کیا ہے
قضا کے خوف سے کر لے گا وہ قبول تُجھے
یزید میرے سخی کو تو سمجھتا کیا ہے
تِری گلی کو ہی مانگا ہے جا کے جنّت میں
تو اس پہ بولے فرشتے یہ مانگتا کیا ہے
اگر نہیں ہے پسینہ گُلوں میں آقا کا
تو پھِر بتاؤ کہ گُلشن میں مہکتا کیا ہے
خُدا سے مانگنے وہ آتے ہیں جو شام و سحر
جو مُصطفٰے سے نہ مانگے وہ مانگتا کیا ہے
لگے نہ جس پہ قدم مصطفٰے کے اے حاؔکم
وہ جائے سوئے حرم بھی تو راستہ کیا ہے
شاعر کا نام :- احمد علی حاکم
کتاب کا نام :- کلامِ حاکم