جو سامنے ہے مدینہ تو دیکھتا کیا ہے

جو سامنے ہے مدینہ تو دیکھتا کیا ہے

یہی تو کعبے کا کعبہ ہے سوچتا کیا ہے


مِرے حضور کو اَے خُود سا بولنے والے

تو اُن کی ذات کے بارے میں جانتا کیا ہے


بروزِ حشر خُدایوں کہے گا بندوں سے

جو مُصطفےٰ کو نہ مانے وہ مانتا کیا ہے


قضا کے خوف سے کر لے گا وہ قبول تُجھے

یزید میرے سخی کو تو سمجھتا کیا ہے


تِری گلی کو ہی مانگا ہے جا کے جنّت میں

تو اس پہ بولے فرشتے یہ مانگتا کیا ہے


اگر نہیں ہے پسینہ گُلوں میں آقا کا

تو پھِر بتاؤ کہ گُلشن میں مہکتا کیا ہے


خُدا سے مانگنے وہ آتے ہیں جو شام و سحر

جو مُصطفٰے سے نہ مانگے وہ مانگتا کیا ہے


لگے نہ جس پہ قدم مصطفٰے کے اے حاؔکم

وہ جائے سوئے حرم بھی تو راستہ کیا ہے

شاعر کا نام :- احمد علی حاکم

کتاب کا نام :- کلامِ حاکم

دیگر کلام

گلاں بعد چہ بہہ کے کرلاں گے

یادِ نبی کو دِل سے نکالا نہ جائے گا

سوہنا ایں مَن موہنا ایں سوہنا ایں مَن موہنا ایں

پادے آمنہ توں لعل میری جھولی حلیمہ ایہو خیر منگدی

دائیاں دا سوال-حلیمہ دا جواب

دنیا میں بس وہ صاحبِ ایمان ہو گیا

نظارا اے دمِ آخر بتا کتنا حسیں ہوگا

تاریکیاں دے فاصلے زُلفاں تے مُک گئے

تِری ذات سب کے ہے سامنے تُمہیں جانتا کوئی اور ہے

لباں تے ثنا ہووے پُوری دُعا ہووے