نظارا اے دمِ آخر بتا کتنا حسیں ہوگا

نظارا اے دمِ آخر بتا کتنا حسیں ہوگا

مَروں طیبہ میں تو پھر وقتِ قضا کتنا حسیں ہوگا


وہ حُوریں پاک حبشی کو میں گُم اِنہیں خیالوں میں

سخی اِتنا حسیں ہے تو گدا کِتنا حسیں ہوگا


وہ نہ بھی سجا تب بھی امیرِ حُسن لگتا ہے

اَے یُوسف یہ بتا وہ سجا کتنا حسیں ہوگا


ہے جو بھی چیز دُنیا میں بنی مولا کی مرضی سے

مگر اپنی جو مرضی سے بنا کِتنا حسیں ہوگا


خدا نے نور اپنے سے نکالا نور کو تیرے

کہ شامل ہے حسیں اتنا جدا کتنا حسیں ہوگا


محمد دیکھ کر حاکم یہ کہتے ہیں نظر والے

جو یہ اتنا حسیں ہے تو خدا کتنا حسیں ہوگا

شاعر کا نام :- احمد علی حاکم

کتاب کا نام :- کلامِ حاکم

دیگر کلام

سوہنا ایں مَن موہنا ایں سوہنا ایں مَن موہنا ایں

پادے آمنہ توں لعل میری جھولی حلیمہ ایہو خیر منگدی

دائیاں دا سوال-حلیمہ دا جواب

جو سامنے ہے مدینہ تو دیکھتا کیا ہے

دنیا میں بس وہ صاحبِ ایمان ہو گیا

تاریکیاں دے فاصلے زُلفاں تے مُک گئے

تِری ذات سب کے ہے سامنے تُمہیں جانتا کوئی اور ہے

لباں تے ثنا ہووے پُوری دُعا ہووے

سارے ناموں سے کنارا کیجئے

خُدا خُدا اے نبی نبی اے نبی نوں ویکھیں خُدا نہ سمجھیں