رخِ صفی پہ یہ سہرا سجا سبحان اللہ

رخِ صفی پہ یہ سہرا سجا سبحان اللہ

ہر ایک پھول خوشی سے کھلا سبحان اللہ


حسینی اور حسنی خون کا یہ سنگم ہے

اور اس میں رنگِ مدینہ گھلا سبحان اللہ


یہ خانوادہء برکات کا ہے چشم و چراغ

یہ ایک شیر ہے مارہرہ کا سبحان اللہ


حضور سید العلماء سے اس کو نسبت ہے

یہ ان کے بیٹے کا ہے لاڈلا سبحان اللہ


حضور احسن العلماء سے اس کو بیعت ہے

انہیں کے فضل کے سائے پلا سبحان اللہ


کرم ہے غوث کا اپنے مرید پر اتنا

کہ پیر زادوں میں رشتہ ہوا سبحان اللہ


بہت ہی خوش ہیں جنابِ غلام وحدانی

پلا پلایا یہ بیٹا ملا سبحان اللہ


جناب نظمی کو بیٹی کی آرزو تھی بہت

بہو نے بیٹی کا رتبہ لیا سبحان اللہ


بہو کے آنے پہ بشریٰ یہ کہتی ہیں سب سے

ہے عالیہ میرے گھر کی ضیاء سبحان اللہ


شریک ہونے کو ماموں بھی آئے اردن سے

بڑا چہیتا ہے یہ بھانجا سبحان اللہ


چچا نجیب نے دی ہے دعا بھتیجے کو

میں ہوں صفی کا صفی ہے مرا سبحان اللہ


رشید بھائی یہ بولے کہ باوزیر ہوں میں

وزیر مجھ کو صفی سا ملا سبحان اللہ


خوشی میں جھومتی پھوپھیاں صفی کی کہتی ہیں

کرم ہو رب کا صفی پر سدا سبحان اللہ


کہا یہ زلفی نے سبطین سے مبارک ہو

کہ سر پہ بھائی کے سہرا سجا سبحان اللہ


وہ بیٹھے کونے میں احمد میاں یہ کہتے ہیں

کہ بازی لے گیا چھوٹا مرا سبحان اللہ


الٰہی میرے صفی پر سدا کرم رکھنا

ہزار نعمتیں کرنا عطا سبحان اللہ


لکھا جو نظمی نے سہرا یہ اپنے بیٹے کا

پکار اٹھے سبھی برملا سبحان اللہ

کتاب کا نام :- بعد از خدا

دیگر کلام

رمضان کا مہینہ ہے ایماں سے منسلک

ماہ و انجم کو پرو کر جو بنایا سہرا

بنا ہے سبطین آج دولہا سجائے سہرا نجابتوں کا

مینارِ نور بن کے جو تیار ہوگیا

استادہ ہے کس شان سے مینار رضا کا

ذوالفقار حیدر کے سر جو چھا گیا سہرا

مرکزِ رشد و ہدایت ہے یہ عرفان العلوم

چاک دامن کے سلے دیکھے تھے

نہیں کچھ بھی اس کے سوا چاہیے

شانِ محبوبی یہ کہتی ہے کہ اُن کے نام پر