حضور! ایسا کوئی انتظام ہو جائے
سلام کے لیے حاضر غلام ہو جائے
نظر سے چوم لوں اِک بار سبز گنبد کو
بلا سے پھر میری دنیا میں شام ہو جائے
تجلّیات سے بھر لوں میں کاسئہ دل و جاں
کبھی جو اُن کی گلی میں قیام ہو جائے
حضور آپ جو چاہیں تو کچھ نہیں مشکل
سمٹ کے فاصلہ یہ چند گام ہو جائے
حضور آپ جو سُن لیں تو بات بن جائے
حضور آپ جو کہہ دیں تو کام ہو جائے
ملے مجھے بھی زبانِ بو صیریؔ و جامی ؔ
مرا کلام بھی مقبولِ عام ہو جائے
مزا تو جب ہے فرشتے یہ قبر میں کہہ دیں
صبؔیح! مدحتِ خیر الانام ہو جائے