خاکِ درِ حضرت جو مرے رُخ پہ ملی ہے

خاکِ درِ حضرت جو مرے رُخ پہ ملی ہے

یہ فیض یہ عظمت مرا حقِ ازلی ہے


جنّت کے لیے مرتے ہو کیوں اہلِ محبت

جنّت کی بھی جنّت مرے آقا کی گلی ہے


انساں پہ کُھلے کیسے مقام ِ شہِ کونین

یہ راز حقیقت ہے خفی ہے نہ جلی ہے


آنکھوں سے نہیں اُٹھتی چمک اُٹھتی ہے دل میں

گردِ رہِ طیبہ نہیں سونے کی ڈلی ہے


کردارِ نبی پوچھیے صدیق و عمر سے

ایک ایک ادا نور کے سانچے میں ڈھلی ہے


اے حضرتِ موسیٰ ! یہ بڑے ہوش کا ہے کام

یہ وادئ سینا نہیں طیبہ کی گلی ہے


ہم دیکھ کے بھی دیکھ نہیں سکتے وہ جلوے

دیدِ نبوی نازِ الہٰی کی پلی ہے


کیا مدح ہو اس گھر کی صبیحِؔ جگر افگار

جس گھر کا ہر اِک بچہ ولی ابنِ ولی ہے