کیا ذکر محمد نے تسکین دلائی ہے

کیا ذکر محمد نے تسکین دلائی ہے

جس آگ میں جلتا تھا وہ آگ بجھائی ہے


شیدائے محمد کی ہر شان ہے ذیشانی

دامانِ کرم سر پہ قدموں میں خدائی ہے


کعبے کا ارادہ تھا لے آئی مدینے میں

تدبیر کے سائے میں تقدیر بن آئی ہے


خود آنکھیں بچھاتے ہیں راہوں میں خرد والے

دیوانہء طیبہ کی کیا خوب بن آئی ہے


صد طور بداماں ہے ہر سانس نظر بن کر

انوار شہِ دیں نے تقدیر جگائی ہے


توصیف شہِ والا کس منہ سے بیاں ہوگی

قرآں کی قسم قرآں خود مدح سرائی ہے


اس نام کی برکت سے اس ذکر حقیقت سے

ہر نعت کا متوالا جامیؔ و سنائیؔ ہے


اسلام کی سیرابی مقصد تھا صبؔیح اُن کا

عاشور کے پیاسوں کی خشکی بھی ترائی ہے