بابِ مدحت پہ مری ایسے پذیرائی ہو
لفظ خوش بُو ہوں، خیالات میں رعنائی ہو
ہو اگر بزم ترا نام رہے وردِ زباں
تجھ کو سوچوں جو میسر کبھی تنہائی ہو
وادئ جاں میں پڑاؤ ہو تری خوشبو کا
حجرۂ دل میں تری انجمن آرائی ہو
چاک کرتی ہیں قبا، فرطِ ہوا سے کلیاں
اے صبا! کوچۂ دل دار سے ہو آئی ہو ؟
وہ تکلّم کہ جسے حسنِ سماعت ترسے
وہ تبسّم کہ ہر اک پھول تمنّائی ہو
ناقہء شوق اس انداز سے طے ہو یہ سفر
لَے حجازی ہو تری، زمزمہ صحرائی ہو
کس نے دیکھا ہے بہم شام و سحر کو شاکر
ہاں اگر زلف وہ رخسار پہ لہرائی ہو