کیوں اسے حشر میں اندیشہء رسوائی ہو
جس کو حاصل تری چوکھٹ کی جبیں سائی ہو
ہو فدا تجھ پہ ہر اک دل کشی و محبوبی
تجھ پہ قربان ہر اک خوبی و زیبائی ہو
درپئے جان ہو مکّہ تو مدینے میں تری
طَلَعَ البَدرُ عَلَینَا سے پذیرائی ہو
تیری مرضی ہو اگر لوٹ کے سورج آئے
اک اشارے سے ترے چاند کی بن آئی ہو
رقص کرتے ہوئے دربار میں اشجار آئیں
سنگ ریزوں کو عطا قوتِ گویائی ہو
بختِ بیدار نہ کیوں اس کی قدم بوسی کرے
جس کو بستر پہ ترے چین سے نیند آئی ہو
غار بھی مرکزِ انوار ہیں تیرے دم سے
میرے دل میں بھی ذرا سی چمن آرائی ہو
قلبِ محزوں میں ترے حرفِ تسلّی سے بھلا
کیسے ممکن ہے سکینت نہ اتر آئی ہو؟
نخلِ صحرا ہوں مجھے برگ و ثمر مل جائے
ابرِ بارانِ کرم کچھ تو مسیحائی ہو
تیرا سکہ ہی رواں سلطنتِ دل میں رہے
اور معمورۂ جاں پر تری دارائی ہو
پھر ملے پیرہنِ یوسفِؑ کنعاں کو وقار
پھر عطا دیدۂ یعقوبؑ کو بینائی ہو
بندہ پرور مجھے پھر اذنِ مدینہ دیجئے
پھر نگاہوں میں وہی جلوۂ خضرائی ہو
ان کی مدحت ہو مرے خشک لبوں پر شاکر
آخری وقت ہو جب جان پہ بن آئی ہو