وہ مطلعِ انوارِ سحر کیسا لگے گا
اے دل تجھے طیبہ کا نگر کیسا لگے گا
اک نُور سا تا حدِّ نظر کیسا لگے گا
مَیں اور مدینے کا سفر کیسا لگے گا
گلیوں میں تری خاک بسر کیسا لگے گا
معراج کی منزل پہ بشر کیسا لگے گا
جب حُسنِ عقیدت سے نکھر جائیں گے جذبے
اس وقت مرا رنگِ ہنر کیسا لگے گا
جب ہوں گی ترے نام کی لَے سے مترنّم
پھر میری دعاؤں کا اثر کیسا لگے گا
جب ہوگی مرے حق میں شہِ دیںؐ کی شفاعت
اس وقت مرا دامنِ تر کیسا لگے گا
خواہش ہے کہ طیبہ میں کبھی جا کے تو دیکھوں
مقصودِ نظر پیشِ نظر کیسا لگے گا
شاکر یہ بجا ہے کہ سیہ کار ہوں لیکن
ہو جائے کرم ان کا اگر، کیسا لگے گا