الحذر از حُبِّ دنیا الحذر
یہ جہاں منزل نہیں ‘ ہے رہگذر
خوبصُورت ہے جہانِ رنگ و بُو
کارواں سے ہی بچھڑ جائے نہ تُو
کتنے داؔرا و سکندر ؔر کھو گئے
مل گئے مٹّی میں مٹّی ہوگئے !
یہ جہاں فانی ، فنا کوھے قیام
اِس جہاں میں کس کو حاصِل ہے دوام
ڈوب جاتے ہیں ستارے ، ماہتاب
"آفتاب آمد دلیلِ آفتاب"
شور فانی ہے مگر باقی سکوت
یہ نفس ہے ایک تارِ عنکبوت
زندگانی موت کی تصویر ھے !
ہر تمنّا پاؤں کی زنجیر ہَے
موت سے ممکن نہیں ہرگز مفَر
نیستی ، ھستی ہیں دونوں ہمسفر
کِس لیے ہیں آرزو کے سلسلے
سوچ تنہائی میں گر فُر صت ملے
کیا رہے گا تُو سدا اِس جا مکیں
کیا نہ جائے گا کبھی زیرِ زمیں !
ہے کہاں بچپن ترا ماضی کہاں !
اب کہاں چہرے پہ باقی سُر خیاں
تُو مسافر ہے مسافر بن کے چل
وقت کے دشوار رستے میں سنبھل
گُلشنِ ھستی میں آ بیگانہ وار
دیکھتا جا اِن بہاروں کا نکھار
لاکھ مُر غانِ چمن ہوں نغمہ زن
صوت کے جادو میں کھو جائے نہ من
دیکھ چُپکے سے خزاؤں کا طلسم
دیکھ بن کر ایک آئینے کا جسم
برق میں تنکے ہیں یا تنکوں میں برق
موت و ہستی میں ہے بس اتنا ہی فرق
خرمنِ ھستی پہ رکھ اپنی نگاہ!
اِ ک شرر کافی ہے کر نے کو تباہ!
تجھ کو جانا ہے جہاں آباء گئے
جانے والے سب یہی فر ما گئے !
تُو نے دیکھے ہیں جنازے بے شمار
تُو نے کیا دیکھا نہیں اپنا مزار
تجھ کو ہنگاموں سے فرصت بھی ملے
غور فرما نے کی مہلت بھی ملے !
ہار پہنائے کوئی تجھ کو اگر !
جھوم جاتے ہیں ترے قلب و نظر
جھُوٹ ہَے تُو صاحبِ عرفان ہے
اے سگِ دُنیا یہی بُہتان ہے
زر پرستی ، زر فشانی ، زرگری!
فقر کو سمجھا ہے تُو سودا گری !
تیری ، شُہرت کے لیے ہے بندگی
زندگی کے بعد بھی شر مندگی
تو فقط ہَے بندہِ حرص و ہَوا
بے خبر تُو فقر کو سمجھا ہے کیا
غم نہیں ، غم میں وہ ہے بے آرزو
فقر کی منزل مسلسل جُستجو !
ہاں مگر وہ جُستجو کچھ اور ہے
طالبِ مولیٰ کا اپنا طَور ہَے
اپنی منزل آپ جو طے کر گیا
وہ یہاں مرنے سے پہلے مر گیا!
حُبِّ دُنیا ہے تمنّا ئے یزیدؔ!
طالبِ دُنیا کمینہ سگ پلید!
فقر کیا ہَے فکرِ دنیا سے نجات
فکرِ عقبیٰ فقر کا رازِ حیات
فقر ہَے " اَلْفقر فخری "بالیقیں
فقر کے دامن میں مال و زر نہیں
فقر اور اندیشہء سُود و زیاں؟
اِک حسیں چہرے پہ چیچک کے نشاں ؟
فقر ہے بے تابئ قلبِ حزیں
فقر اشکوں کے سوا کچھ بھی نہیں
فقر ہے نانِ جویں کی داستاں
زر پرستی فقر کی حامل کہاں
فقر تاریکی میں ہے روشن دِیا
فقر کی آواز ہے بانگِ درا ،
فقر کا جامہ گلیمِ بوذرؔی۔
فقر کے بازو میں زورِ حیدؑری
فقر قرنیؒ ، فقر جامیؒ ، فقر رومؒ
فرش کیا ہے عرش پر ہے اسکی دُھوم
فقر کے لب پر صدائے لَا اِلہٰ ،
اندلس ہو سندھ ہو ، یا کر بلا
فقر کی مستیِ کا علم نیم شب
حق سے بندے کو ملانے کا سبب
فقر کیا ہے ایک مردِ دیدہ ور
ہر زمان و ہر جہاں سے باخبر
فقر اِلّا اللہ کی تفسیر ہے
فقر کیا ہے سجدہ ء شبّیرؑ ہے
فقر ہے چاکِ گریبانِ حیات!
فقر ہی ھے موجِ بحرِ اسمِ ذات
فقر کے دم سے ہے قائم انجمن
فقر کے در پہ نِگوں چرخِ کُہن
فقر جبّہ میں ہے نے دستار میں !
یہ دُکانوں پر ہے نے بازار میں
فَقر ملتا ہے نہ جاہ و مال سے
فقر ملتا ہے نبیؐ کی آل سے !
فقر مل جائے جسے وہ ہے وَلی !
کون سمجھائے تجھے واصؔف علی