کاروانِ زندگی پیہم رواں ہے صبح و شام
اِس فنا کے دیس میں حاصل ہُوا کس کو قیا م
پھُول جو کھِلتا ہے وہ اِک دن یہاں مرجھائے گا
یہ سرائے فانی ہَے جو آئے گا وہ جائے گا
اپنی اپنی منزلوں پر ہیں ستارے گامزن !
صبح دم خاموش ہو جاتی ہَے ساری انجمن
رات کے دامن سے آلگتا ہے نورِ آفتاب
شام پہنانے چلی آتی ہے سُورج کو نقاب !
جگمگاتی صبح کی تقدیر کالی شام ہَے
زندگی کی دھڑکنوں کا موت ہی انجام ہے
لکھنے والے نے لکھا ہستی کی قیمت میں زوال
ہاں مگر باقی رہے گی ذاتِ رَبِّ ذو الجلال
مردِ کامل ہے وہی جو منزلیں طے کر گیا
زندگی اُس کی ہے جو مرنے سے پہلے مر گیا
موت کیا ہے حق سے بندے کو ملانے کا سبب
موت سے ڈرتے نہیں جو جاگتے ہیں نیم شب
پیر پیغمبر ، ولی ، درویش، مردانِ خُدا
موت کی وادی سے گزرے ہیں بہ تسلیم و رضا
زندگی اور موت ہے اپنی خُدا کے واسطے
مردِ مومن ہے فقط صبرو رضا کے واسطے
سانس کی آری سے کٹ جاتا ہے ہستی کا شجر
زندگی میں موت سے ممکن نہیں ہر گز مفر
حشر برپا ہیں کئی اِک جذبہِ خاموّش میں !
زندگی سوتی ہے آخر موت کی آغوش میں
روزِ اوّل سے یہی ہے زندگی کا سِلسلہ،
موت کیا ہے زندگی کا آخری اِک مرحلہ !
برق میں تنکے ہیں واصؔف یا کہ ہے تنکوں میں برق
موت اور ہستی میں کیا سمجھے کوئی انسان فرق