مَیں نعرہ مستانہ، مَیں شوخئِ رِندانہ
میں تَشنہ کہاں جاؤں ، پی کر بھی کہاں جانا
مَیں طائرِ لاہوتی ، مَیں جوہر ِ ملکوتی !
ناسوتی نے کب مجھکو اس حال میں پہچانا!
مَیں سوزِ محبّت ہُوں مَیں ایک قیامت ہُوں
مَیں اشک ِ ندامت ہُوں ، مَیں گو ہرِ یکدانہ
کِس یاد کا صحرا ہُوں ، کِس چشم کا دریا ہوں
خود طُور کا جلوہ ہُو ں ہے شکل کلیمانہ !
مَیں شمع فروزاں ہُوں ، میں آتشِ لرزاں ہُو ں
مَیں سوزشِ ہجراں ہُوں مَیں منزل ِ پر وانہ
مَیں حُسنِ مجسّم ہوں ‘ مَیں گیسوئے بر ہم ہُوں
مَیں پھُول ہُوں شبنم ہوں ، مَیں جلوہ جانانہ
مَیں واصفِ بِسمل ہُوں میں رونقِ محفل ہُوں
اِک ٹوٹا ہُوا دل ہُوں میں شہر میں ویرانہ