شب ِ انتظار کی بات ہُوں غمِ بر قرار کی بات ہُوّں
کِسی راز دار کی بات ہُوں بڑے اِفتخار کی بات ہُوں
کبھی سنگ ہُوں کبھی خار ہوں میں کبھی جنونِ بہار ہُوں
تری حسرتوں کا مزار ہوں ، ترے راہگزار کی بات ہُوں !
ہوں کِسی کی دید کی آرزُو ، اسی آرزُو سے ہے آبرُو !
ہے ازل سے ایک ہی جستجو مَیں کسی کے پیار کی بات ہُوں
مَیں کسی کی زُلف کا ناز ہوں ، کسی غزنوی کا ایاز ہُوں ،
کسی میکدے کا مَیں راز ہوں ، کہ نگاہِ یار کی بات ہُوں !
مَیں صدائے روزِ الست ہوں ، مَیں اسی خمار میں مست ہُوں
نہ بلند ہوں نہ مَیں پست ہوں ، کہ وفا شعار کی بات ہُوں !
مَیں غرورِ عشق کی لاش ہوں ، تیرے سنگ ِ در کی تلاش ہُوں
میں دل و جگر کی خراش ہوں کہ میں نوکِ خار کی بات ہُوں
تُو ہی بے نشاں کا نشان ہَے تُو ہی ماورائے گمان ہَے
مجھے تیری ذات پہ مان ہے مَیں نفس کے تار کی بات ہُوں
تُو ہی برقِ حُسنِ جمال ہَے ، میرے آشیاں کا مآل ہے
یہ فراقِ عینِ وصال ہَے ، مَیں چمن کے بار کی با ت ہُوں
مَیں کسی کا حُسنِ خیال ہوں کہ مصوّری کا کمال ہُوں
میں کسی نظر کا جمال ہوں ، کسی برقبار کی بات ہُوں !
میں نہاں کبھی ہوں شہود میں،میں نہ ہست میں نہ ہوں بود میں
مَیں رکوع میں نہ سجود میں ، دلِ بے قرار کی بات ہُوں
کبھی نقشِ پا پہ گرا ہوں مَیں کبھی منزلوں سے ورا ہُوں مَیں
کبھی اِک صدائے ورا ہوں مَیں کسی اشکبار کی بات ہُوں
مَیں جھکوں تو دنیا ہو سرنگوں ، مَیں اُٹھوں تو اٹھتی ہے موجِ خوں
مَیں خرد کے بھیس میں ہوں جنوں کہ مَیں رقص و دار کی بات ہُوں
میری ایک آہ کے منتظر ، کھڑے بے کسی میں ہیں بام و در
سرِ شام چاہوں تو ہو سحر، مَیں فلک سوار کی بات ہُوں !
میرا نام زینتِ داستاں ، مَیں کسی کے حُسن کا پاسباں
مَیں کسی کی بزم کا ہوں نشاں ، مَیں دیارِ یار کی بات ہُوں
مَیں جلاؤں دیپ قدم قدم ، میرا سر جُھکا ہَے جنم جنم !
مَیں صنم پرست کبھی صنم ، کسی یارِ غار کی بات ہُوں
مَیں فنا کی راہ سے دُور ہوں مَیں بقائے شوق ضرور ہُوں
مَیں مئے فراق سے چُور ہوں ، مَیں بڑے خمار کی بات ہُوں
مَیں کہ شاہبازِ قدیم ہوں ، مَیں نشانِ عزمِ صمیم ہُوں !
مَیں شہیدِ جلوہ میم ہوں ، کِسی "ریگ زار" کی با ت ہُوں
مَیں خبر کے دام کا دام ہوں ، مَیں خرد کدے کا امام ہُوں
مَیں علی ولی کا غلام ہوں اُسی تاجدار کی بات ہُوں
میرا نام واصؔفِ با صفا ۔۔۔۔۔ میرا پیر سیّدِ مر تضے ٰ
میرا درد احمدِؐ مجتبےٰ مَیں سَدا بہار کی بات ہُوں