حج کے وہ منظر سہانے ہم کو یاد آئے بہت
لوٹ کر اپنے وطن کو ہم تو پچھتائے بہت
بابِ ابراہیم سے کعبے کا منظر واہ واہ
ہم تصور میں وہ لمحے اپنے بھر لائے بہت
ملتزم، میزابِ رحمت، سنگِ اسود اور حطیم
ہر ادا کعبے کی میرے دل کو تڑپائے بہت
ہوں صفا مروہ کے چکر یا ہو کعبے کا طواف
ہر قدم پر اپنی قسمت پر ہم اترائے بہت
سنگِ ابراہیم کے پیچھے نوافل بھی پڑھے
ایک اک سجدہ وہاں پر دل کو گرمائے بہت
نور سے معمور پربت پر جو ہے غارِ حرا
واقعہ اقرا یہاں آ کر کے یاد آئے بہت
مسجدِ نمرہ کی وسعت جبلِ رحمت کا جلال
اور سنّاٹا احد کا دل کو دہلائے بہت
ہر طرف آثارِ اسلامی کی درگت العیاذ
نجدیوں نے خوں کے آنسو ہم کو رُلوائے بہت
آبِ زمزم جب پیا تب پیٹ بھر بھر کر پیا
نظمی اپنی روح کو سیراب کر لائے بہت