خوشبو ہمیں طیبہ کی سنگھانے کے لیے آ

خوشبو ہمیں طیبہ کی سنگھانے کے لیے آ

اے بادِ صبا ہم کو جِلانے کے لیے آ


دو حصوں میں تقسیم ہوا حکمِ نبی پر

اے چاند وہ شق سینہ دکھانے کے لیے آ


آقا کے اشارے پہ جو ڈوبا ہوا پلٹا

اے مہر ہمیں حال سنانے کے لیے آ


ہجرِ قدمِ ناز میں تو رویا تھا اک دن

اے استنِ حنّانہ ہنسانے کے لیے آ


اسریٰ میں بنا حضرتِ احمد کی سواری

برّاق، وہ کیا تھا یہ بتانے کے لیے آ


نقشِ قدمِ پاک کو سینے میں جگہ دی

اے سنگ ہمیں موم بنانے کے لیے آ


کیا ہوگا مرا حال جو سرکار یہ کہہ دیں

نظمی ہمیں کچھ نعتیں سنانے کے لیے آ