پھر مدینہ کا سفر یاد آیا
اپنے سرکار کا در یاد آیا
رحمتِ رب جہاں پل پل برسے
طیبہ برکات نگر یاد آیا
امتِ عاصی کے قدموں میں بچھے
وہی جبریل کا پر یاد آیا
حشر میں مغفرتِ امت کو
وہ بندھا بند کمر یاد آیا
روبرو جس کے دعائیں مانگیں
خانہء کعبہ کا در یاد آیا
جہاں آمین کہیں قدوسی
ملتزم اور حجر یاد آیا
رخصتِ طیبہ کا غمگیں منظر
بھولنا چاہا مگر یاد آیا
جو کہ اسلام بچانے کو کٹا
سبطِ حیدر کا وہ سر یاد آیا
ہم مدینے میں رہے جتنے دن
ایک لمحہ بھی نہ گھر یاد آیا
شہرِ بغداد نشانِ جنت
مرکزِ قلب و نظر یاد آیا
کیا بھلی ہے یہ فضائے اجمیر
خواجہء پاک کا در یاد آیا
کیسے آپے میں رہیں گے نظمی
گنبدِ سبز اگر یاد آیا