دلِ عشاق شہرِ نور سے آیا نہیں کرتے
یہ دیوانے غمِ فرقت سے گھبرایا نہیں کرتے
سحابِ نور چہرے کی نظافت دیکھنے آتے
وہ ہم جیسوں کے سر پر تو کبھی آیا نہیں کرتے
مدینے میں چلو یارو جنھیں غم نے ستایا ہے
سنا ہے غم دیارِ نور میں آیا نہیں کرتے
عمل پیرا نہیں ہوتے کبھی سیرت پہ جو مسلم
سنا ہے دو جہاں میں وہ سکوں پایا نہیں کرتے
محمد کے فقیروں میں کمالِ حُسن یہ دیکھا
غذا وہ غیر کے سونے کی بھی کھایا نہیں کرتے
کمالِ حوصلہ انکے نواسوں کا یہ دیکھا ہے
کہ پیاسے بھی سرِ مقتل وہ گھبرایا نہیں کرتے
سرِ محشر شفاعت ان کی ہونا کیسے ممکن ہے
لبوں پر نام جو سرکار کا لایا نہیں کرتے
نہیں ملتی ہمیں راحت سوا انکے مدینے کے
سکونِ دل مدینے کے سوا پایا نہیں کرتے
لحد سے ڈر نہیں قائم وہاں منکر نہیں ہوتے
فرشتے خادمِ مدحت کو تڑپایا نہیں کرتے