تارِ دل اپنی مدینے سے لگا بیٹھے ہیں
دل کی ہر بات مدینے میں سنا بیٹھے ہیں
پہلے آمد سے سجائی ہے نبی نے سدرہ
بعد میں عرشِ بریں رب کا سجا بیٹھے ہیں
دور خضرٰی سے بھی رہتے ہیں بلا لیں آقا
غم جہاں بھر کے ہمیں روز رلا بیٹھے ہیں
کب بلائیں گے ہمیں در پہ مدینے آقا
آس کا ایک دیا دل میں جلا بیٹھے ہیں
التجا پوری زیارت کی ہماری کر دیں
ہم لبوں پر یہ لئے حرفِ دعا بیٹھے ہیں
جتنے آئے ہیں زمانے میں نبی کے عاشق
شرکِ اکبر کے وہ بت سارے گرا بیٹھے ہیں
وہ شفاعت بھی قیامت میں کریں گے قائم
جن کے دربار میں مطلوبِ شفا بیٹھے ہیں