عام ہیں آج بھی ان کے جلوے ، ہر کوئی دیکھ سکتا نہیں ہیں
سب کی آنکھوں پہ پردہ پڑا ہے ، ان کے چہرے پہ پردہ نہیں ہے
محترم یوں تو سارے نبی ہیں ، پر کسی کا یہ رتبہ نہیں ہے
کہ تاجدار حرم کے علاوہ ، عرش پہ کوئی پہنچا نہیں ہے
عرش پر جب رُکے میرے آقا ، تو یکایک ہوا حکم مولا
کہ بے حجاب آیے یامحمد ، آپ سے کوئی پردہ نہیں ہے
آو نقطہ تمہیں میں بتاو ، کہ کیوں بے نقطہ ہے نام محمد
نام پر بوجھ نقطے کا آئے ، حق کو یہ بھی گوارہ نہیں ہے
عشق کی آگ میں جل رہے ہیں ، کیوں ڈراتا ہے دوزخ سے ہم کو
ہم غلامِ محمد ہیں واعظ ، ہم کو دوزخ کا کھٹکا نہیں ہے
یہ عقیدت نہیں تو کیا ہے، اور یہ محبت نہیں ہے تو کیا ہے
کہ اُن پہ ہم جان دیتے ہیں انور ، جن کو آنکھوں سے دیکھا نہیں ہے