اپنی نسبت سے میں کچھ نہیں ہوں

اپنی نسبت سے میں کچھ نہیں ہوں

اس کرم کی بدولت بڑا ہوں


ان کے ٹکڑوں سے اعزاز پا کر

تاجداروں کی صف میں کھڑا ہوں


اس کرم کو مگر کیا کہو گے

میں نے مانا میں سب سے برا ہوں


جو بروں کو سمیٹے ہوئے ہیں

اُن کے قدموں میں میں بھی پڑا ہوں


دیکھنے والو مجھ کو نہ دیکھو

دیکھنا ہے اگر تو یہ دیکھو


کس کے دامن سے وابستہ ہوں میں

کون والی ہے کس کا گدا ہوں


دیکھتا ہوں جب ان کی عطائیں

بھول جاتا ہوں اپنی خطائیں


سر ندامت سے اٹھتا نہیں ہے

جب میں اپنی طرف دیکھتا ہوں


یا نبی! اپنے غم کی کہانی

کہہ سکوں گا نہ اپنی زبانی


بِن کہے ہی میری لاج رکھ لو

میں سسکتی ہوئی التجا ہوں


شافعِ مُذنباں کے کرم نے

لاج رکھ لی میرے کھوٹے پن کی


نسبتوں کا کرم ہے کہ خالد

کھوٹا ہوتے ہوئے بھی کھرا ہوں