وہ بے مثال بھیک شہِ بے مثال

وہ بے مثال بھیک شہِ بے مثال

جو عمر بھر نہ فرصتِ عرض سوال دے


اس پر زوال آنہیں سکتا خدا گواہ

رحمت جسے تمہاری نوید وِصال دے


اے مہرِ لازوال رحیم و کرم خصال

ذرہ ہوں مجھکو تابشِ بدر کمال دے


اے بے مثال تیرا کرم بھی ہے بے مثال

حیران آئینہ ہو کچھ ایسا جمال دے


جب مانگنا ہے تجھ سے تو مانگوں گا اس طرح

دونوں جہان ہی مری جھولی میں ڈال دے


اب اس نظرسے کیا نہ تو قع رکھے کوئی

بے جان پتھروں میں بھی جو جان ڈال دے


ایسا کریم ان کے سوا اور کون ہے

دل سے ضرورتوں کے جو کانٹے نکال دے


تصویر بن سکوں ترے اقوالِ پاک کی

سیرت نواز مجھکو بھی وہ خد و خال دے


رحمت ہے جس کی عام بغیر امتیاز کے

ممکن نہیں کہ وہ کسی سائل کو ٹال دے


اس التفاتِ خاص کی ہے مجھکو آرزو

جو زندگی کو آپ کی سیرت میں ڈھال دے


خالدؔ کے حق میں عزت و تو قیر ہے یہی

حسّان کا خلوص دے ذوقِ بلال دے