اللہ کرم اللہ کرم آباد رہے نعتوں کا جہاں
اس نعت نبی کی نسبت سے کھوٹا بھی کھرا ہوتا ہے یہاں
انداز ہو جامی ؔ کا جس میں سعدؔی کا لب و لہجہ ہو جہاں
پھر نعت شفا دیتی ہے اُنھیں مجروحِ ستم جو بھی ہو جہاں
دوری پہ مدینے سے اپنی روتے ہیں جو راتوں کو اُٹھ کر
ہے ذکرِ شہ ِ لولاک لما، ان درد کے ماروں کا درماں
اللہ کرم جس پر کر دے جامیؔ بھی وہی سعدی ؔ بھی وہی
ہر اِک کو رنگ جدا بخشا ہر اک کو جدا بخشی ہے زباں
واعظ مجھے اتنا بھی نہ ڈرا ، میں خوف سے تیرے مر جاؤں
کچھ ابرِ کرم کی بات بھی کر ، پیاسے ہیں کرم کے لوگ یہاں
پھر علم کی بے توقیری ہے پھر جہل کا بول ہے نعتوں میں
آجاؤ خدا را پھر جامیؔ مٹ جائیں جہالت کے یہ نشاں
پڑھتے بھی سہی لکھتے بھی سہی ، آداب ثنا کے جانتے سب
گر ہاتھ میں دُرّہ اپنا لیے آجاتے اگر فاروق یہاں
اب ایسی نعت ادیبؔ نہ لکھ منصور کا سا انجام نہ ہو
ہاتھوں میں سبھی کے پتھر ہیں اور جہل ہے تیرا دشمنِ جاں
شاعر کا نام :- حضرت ادیب رائے پوری
کتاب کا نام :- خوشبوئے ادیب