درِ نبیؐ پہ جو سب سر جھکائے بیٹھے تھے

درِ نبیؐ پہ جو سب سر جھکائے بیٹھے تھے

اُنہی میں ہم بھی تھے، ہم منہ چھپائے بیٹھے تھے


ہر اک گناہ ہمیں اپنا آرہا تھا یاد

ندامتوں کے ہم آنسو بہائے بیٹھے تھے


ہماری بد عملی نے ہمیں تباہ کیا

ہم اپنی زیست کا دامن جلائے بیٹھے تھے


کرم کے پھول طلب کر رہی تھی اک خلقت

اور ایک ہم تھے کہ ہم گل کھلائے بیٹھے تھے


ہماری دیدہ دلیری تو دیکھئے، پھر بھی

پئے نگاہِ کرم ہاتھ اٹھائے بیٹھے تھے


مگر وہ در تھا شفیع الوریٰ کا در اختؔر

ہم ایک پل میں مقدر بنائے بیٹھے تھے

شاعر کا نام :- اختر لکھنوی

کتاب کا نام :- حضورﷺ

بہت شدید تشنج میں مبتلا لوگو!

کِتنا بڑا ہے مُجھ پہ یہ اِحسانِ مصطؐفےٰ

ہر ذرّۂ وجود سے اُن کو پُکار کے

جب حُسن تھا اُن کا جلوہ نما انوار کا عَالم کیا ہوگا

رونقِ بزمِ جہاں ہیں عاشقانِ سوختہ

رَحمت مآب جانِ کرم پیکر صِفات

تم ہو شہِ دوسرا شاہِ عرب شاہِ دیں

یاالہٰی رحم فرما مصطفٰی کے واسطے

بیاں کیوں کر ثنائے مصطَفٰے ہو

طواف اُن کا کرے بزرگی