اختر لکھنوی

دل کو شعور، ذہن گو گیرائی مل گئی

آبلے ہوں پاؤں میں آب آبدیدہ ہو

کیا ہے عرش سے اخترؔ کلام ہم نے بھی

حضورؐ نے شجرِ سایہ دار میں رکھا

اُن کے در کے فیض سے سرشار ہونا تھا، ہوئے

حرم کہاں وہ حرم والے کا دیار کہاں

حیراں تھے ہم بھی، زیست بھی حدِّ مدینہ پر

انہی میں ہم بھی ہیں جو لوگ میہمان ہوئے

لٹا کے بیٹھا ہی تھا چشمِ تر کا سرمایہ

درِ مصطفےٰ پہ جس دم، دمِ بےخودی میں پہونچے

بے رمق چہرہ نہیں ہے چاک پیراہن نہیں

سحر کے، شام کے منظر گلاب صورت ہیں

حیات کے لئے عنواں نئے ملے ہم کو

اپنی ضد کا ثبوت اس طرح ہوا دیتی تھی

یوں مدینے میں لوگ چلتے تھے

سو رنگ ہیں اب پاس مرے دیدہ وری کے

جو بھی منظر تھا وہ تھا ہوش اڑانے والا

دل کی دھڑکن تیز، ہستی صورتِ تصویر تھی

دکھائی جا نہیں سکتی کسی کو وہ دولت

ایسی بھی ہے مرے آقاؐ کے نگر کی خوشبو

اب کیسے کہیں کیا کہیں اور کیا نظر آیا

ہر اک منظر ہے دل آویز خوشبو ہے ہواؤں میں

عام سی بات تھی قطرے کا گہر ہو جانا

چاک دامن کے سلے دیکھے تھے

ایک شعر

ہم بھی آراستہ تھے رنگوں سے

دوستو! ہو سبیل جینے کی

میانِ روشنی تجھ سا سیاہ رو ہوگا

جنہیں عزیز ہوئی ہر نفس رضائے حضورؐ

درِ نبیؐ پہ جو سب سر جھکائے بیٹھے تھے