حیات کے لئے عنواں نئے ملے ہم کو

حیات کے لئے عنواں نئے ملے ہم کو

نئے حوالے، نئے سلسلے ملے ہم کو


سجے ہوئے تھے بسوں پر درود کے توشے

سلام پڑھتے ہوئے قافلے ملے ہم کو


قدم قدم پہ مدینے کی شاہراہوں میں

فلک کے چاند ستارے پڑے ملے ہم کو


درِ نبیؐ پر پہنچ کر جو آئینہ دیکھا

جبیں پہ چاند ستارے جڑے ملے ہم کو


وہ غارِ ثور، وہ غارِ حرا، وہ کوہِ احد

کہیں ارادے، کہیں حوصلے ملے ہم کو


جو رہگذار تھی وہ کہکشاں کی صورت تھی

گلاب جیسے سبھی راستے ملے ہم کو

شاعر کا نام :- اختر لکھنوی

کتاب کا نام :- حضورﷺ

دیگر کلام

میرے لفظوں میں شمس الضحیٰ ہے

بلغ لعُلےٰ بکمالہِ

مرا مدّعا ہیں مدینے کی گلیاں

قسمت کے گہر لے کے میں اس در سے چلا ہوں

یہی انجامِ قال و قیل ہوا

حقیقت آپ کی حق جانتا ہے

یامصطَفٰے عطا ہو اب اِذن، حاضِری کا

کوئی بھی نہ محبوبِ خُدا سا نظر آیا

زندگی عشقِ محمدا میں گزاری جائے

جاہ کا نَے حشم کا طالب ہوں