کوئی بھی نہ محبوبِ خُدا سا نظر آیا

کوئی بھی نہ محبوبِ خُدا سا نظر آیا

جِس آن میں دیکھا اُسے یکتا نظر آیا


اُس کو بھلا کیا آپ کا سایہ نظر آئے

جس آنکھ کو اللہ کا سایا نظر آیا


ظاہر تری صُورت سے ہوا حُسنِ ازل بھی

دیکھا جو مدینے سے تو کعبہ نظَر آیا


مطلُوبِ دو عالم بھی ہیں محبوبِ خدا بھی

اک ذات میں اُن کی ہمیں کیا کیا نظر آیا


مَر جاتے اگر دل میں تری یاد نہ آتی

صد شُکر کہ جینے کا سہَارا نظر آیا


ذرّے درِ اقدس کے ہیں مہر و مہ و انجم

گردُوں بھی گدائے شہِ والا نظر آیا


جا کر نہ اُٹھی آنکھ سُوئے گنبدِ خضرا

دیکھا ہے وہی دُور سے جِتنا نظر آیا


اعظؔم مرے ہم عصر خدایانِ قلَم میں

کوئی نہ محمؐد کا شناسا نظر آیا

شاعر کا نام :- محمد اعظم چشتی

کتاب کا نام :- کلیاتِ اعظم چشتی

دیگر کلام

یہ جو حسنِ خیال ہے آقا

جن و اِنسان و مَلک کو ہے بھروسا تیرا

مظلوم کا بے کس کا پریشاں کا تحفظ

مسیحائی میں یکتا ہو مدارِ دو جہاں تم ہو

فضائے مدح میں ہم جذبۂ کامل سے آئے ہیں

سحاب ، از پئے کشتِ امل درود شریف

بس گیا چاند حرا کا دل میں

مرا دل جب کبھی درد و الم سے کانپ اٹھتا ہے

ازل سے رواں ہیں

رہزن کے پاس ہے نہ کسی رہنما کے پاس