اُن کے در کے فیض سے سرشار ہونا تھا، ہوئے

اُن کے در کے فیض سے سرشار ہونا تھا، ہوئے

عمر بھر کے خواب سے بیدار ہونا تھا، ہوئے


اُن کی گلیاں اور کوچے دیکھنے کی تھی طلب

شہرِ انور میں سرِ بازار ہونا تھا، ہوئے


اللہ اللہ یہ کرم اُن کا کہ اُن کے گھر گئے

اور زیرِ سایہء دیوار ہونا تھا، ہوئے


ہم سیہ رو منہ دکھانے کے نہ قابل تھے، مگر

اُن کے در سے صاحبِ دستار ہونا تھا، ہوئے


مرضیِ سرکار تھی، کیسے نہ ہوتا ایک دن

ہاشمی صاحب کو میرا یار ہونا تھا، ہوئے

شاعر کا نام :- اختر لکھنوی

کتاب کا نام :- حضورﷺ

دیگر کلام

لب پر ہم ان کا ذکر سجاتے چلے گئے

دل کو شعور، ذہن گو گیرائی مل گئی

آبلے ہوں پاؤں میں آب آبدیدہ ہو

کیا ہے عرش سے اخترؔ کلام ہم نے بھی

حضورؐ نے شجرِ سایہ دار میں رکھا

حرم کہاں وہ حرم والے کا دیار کہاں

انہی میں ہم بھی ہیں جو لوگ میہمان ہوئے

لٹا کے بیٹھا ہی تھا چشمِ تر کا سرمایہ

درِ مصطفےٰ پہ جس دم، دمِ بےخودی میں پہونچے

سحر کے، شام کے منظر گلاب صورت ہیں