انہی میں ہم بھی ہیں جو لوگ میہمان ہوئے

انہی میں ہم بھی ہیں جو لوگ میہمان ہوئے

خوشا نصیب کہ سرکار میزبان ہوئے


یہ معجزہ درِ اقدس پہ اپنے ساتھ ہوا

پلک جھپکتے ہی ہم قد میں آسمان ہوئے


قدم قدم پہ جو لہرا رہے تھے طیبہ میں

ہمارے حال کے وہ رنگ ترجمان ہوئے


نہ کوئی نام، نہ وقعت، نہ آبرو تھی کوئی

بہ فیضِ شہرِ نبیؐ ہم بھی عالی شان ہوئے


سفر مدینے کا کیا پوچھیے رہا کیسا

ہر ایک گام پہ کانٹے بھی مہربان ہوئے


چلے جو سوئے مدینہ قلم نشاں کچھ لوگ

جنابِ ہاشمی کشتی کے بادبان ہوئے

شاعر کا نام :- اختر لکھنوی

کتاب کا نام :- حضورﷺ

دیگر کلام

ہندا اے کرم خوش بختاں تے سلطان مدینے والے دا

عربی سلطان آیا

ہم کو کچھ بھی نہیں درکار رسولِ عربی

اے میریا سوہنیا محبوبا میری تقدیر سنواری جا

میں چھٹیاں غم دیاں نت روز پاواں کملی والے نوں،

مجھے اپنا پُر نور چہرہ دکھا دے

لطفِ شہؐ سے دل مرا آباد ہے

جس کو حاصل ہیں غمِ ساقیٔؐ کوثر کے مزے

نہ آسمان کو یوں سرکَشیدہ ہونا تھا

کب ملا ہے کسی سکندر سے