مجھے اپنا پُر نور چہرہ دکھا دے

مجھے اپنا پُر نور چہرہ دکھا دے

میں ذرّہ ہوں تو مجھ کو سورج بنا دے


اگر تیرے رستے سے میں ہٹ گیا ہوں

تو پھر مجھ کو اس پر دوبارہ لگا دے


صحابہ کی میں شاعری کر رہا ہوں

مجھے اس میں تُو سب کے آگے بڑھا دے


سبھی خواب میرے تُو لوٹا دے مجھ کو

تُو پھر اپنی خوشبو میں مجھ کو اڑا دے


صحابہ چلا کرتے جس راستے پر

مجھے بھی اسی راستے پر چلا دے


جہاں پر پڑے ہوں صحابہ کے جوتے

مجھے اس جگہ پر ہی لا کر بٹھا دے


جہاں پہ ہوں موجود سارے صحابہ

مجھے بھی وہی رنگِ محفل دکھا دے


مسلمانوں سے ہیں وہ دستِ و گریباں

سبھی کافروں کو خدارا بھگا دے


مسلماں جو اس دور میں سو گئے ہیں

مری شاعری سے تو ان کو جگا دے


نہ اترے نشہ جس کا تا روزِ محشر

مجھے بادہ و جام ایسا پلا دے


کروں اپنی آنکھوں کو میں ان سے ٹھنڈا

ابوبکر و فاروق سے تو ملا دے


ادب جو نہیں کرتے مولا علی کا

مجھے ایسے لوگوں سے تنہا لڑا دے


کھڑا رہ سکے سارے فتنوں کے آگے

مرے آقا انجؔم کو ایسی دعا دے

شاعر کا نام :- انجم نیازی

کتاب کا نام :- حرا کی خوشبُو

دیگر کلام

فضا میں نکہتِ صلِ علیٰ ہے

میں یہ سمجھوں گا کہ آنکھوں کی نمی کام آگئی

دلوں کی تہہ میں پوشیدہ محبّت دیکھنے والا

یہ تو بس اُن کا کرم ہے کہ ثنا سے پہلے

عشق کی آہ و زاریاں نہ گئیں

نبیؐ کا نام بھی آرام جاں ہے

ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا رحمتوں کی چلی

جب عشق تقاضا کرتا ہے تو خود کو جلانا پڑتا ہے

ماه درخشان نیر اعظم صلی اللہ علیک وسلم

خدا کے در پہ درِ مصطفےٰؐ سے آیا ہوں