میں یہ سمجھوں گا کہ آنکھوں کی نمی کام آگئی

میں یہ سمجھوں گا کہ آنکھوں کی نمی کام آگئی

آپ کی رہ میں جو میری زندگی کام آگئی


بے سرو سامانیوں میں حاضری ہوتی رہی

شہرِ رحمت سے مری دل بستگی کام آگئی


فقر سے نسبت ہوئی جو ہے متاعِ مصطؐفےٰ

کاروبارِ زیست میں بے حاصلی کام آگئی


حشر میں بھی یہ بنے گی میری بخشش کا سبب

دہر میں جیسے غلامی آپ کی کام آگئی


رحمتہ للعالمیں چارہ گری کو آگئے

خَلق کی حد تک پہنچی بیکسی کام آگئی


جب نہ تھی جذبات کے اظہار کی کوئی سبیل

اس گھڑی پلکوں سے اشکوں کی جھڑی کام آگئی


جب اندھیروں میں بھٹکنے کو تھی تائبؔ زندگی

سیرتِ خیرالوریٰؐ کی روشنی کام آگئی

شاعر کا نام :- حفیظ تائب

کتاب کا نام :- کلیاتِ حفیظ تائب

دیگر کلام

منزلِ ذات کا تنہا رہرو صلی اللہ علیہ وسلم

مجھ پہ چشم عطا کیجئے

ان کا در چومنے کا صلہ مل گیا

دل یار دا نذرانہ لے یار دے کول آئے

آج عیدوں کی عید کا دن ہے

تری ہری بھری دُعا کے سائبان میں رہوں

انبیا کے سروَر و سردار پر لاکھوں سلام

ہم سر کے بل چلیں گے طیبہ کے راستے میں

پیری کا زمانہ ہے مدینے کا سفر ہے

حسنِ لاریب محمد کے خد و خال میں ہے