انجم نیازی

ذرّے ذرّے کی زباں پر لا الٰہ الا للہ

سچا ہے اور سچ کے سوا بولتا نہیں

ذہن کے سادہ اُفق پر تیری خوشبو اور تُو

اٹھا کر ہاتھ لوگوں میں دُعائیں بانٹ دیتا ہے

زمیں ایسی کہ جس پر آسماں قربان ہو جائے

ہر اک دَور ترے دَور کی گواہی دے

ہر عہد ہر مقام کے سلطان آپؐ ہیں

وہ نام آئے زبان و لب پر تو دل میں تازہ گلاب اُتریں

حرفِ کمال کر کے رقم چُوم لیجئے

تیرا اِک اِک نقشِ طیّب عرش پر محفوظ ہے

فرازِ عرش پر رکھی ہوئی تصویر کس کی ہے

دنیا میں اَور بھی ہیں مگر آپؐ آپؐ ہیں

حِرا کی اوٹ میں کونین کے در کھولنے والا

میں نے دیکھا نہ سنا ہے اُس کو

نہ آہٹ ہے نہ پیکر ہے نہ پرچھائیں نہ سایہ ہے

آپؐ کے پاس آنے کو جی چاہتا ہے

لہو میں زِندگی کی لہر سی محسوس ہوتی ہے

روشنی بن کر اُتر چاروں طرف اِک بار پھر

وہ اَبرِ نُور کا ٹکڑا جو اک انسان لگتا ہے

روشنی کا لمحہ لمحہ روشنی پر وار دُوں

مرے قلم کی زباں کو اعلیٰ صداقتوں کا شعور دینا

بدر کے میدان میں اِک سائبان دے دیجئے

ترا زمانہ زمانوں کا بادشہ ٹھہرا

دولتِ ذکرِ صبح گاہی دی

زندگی کا سب سے مشکل مرحلہ طے کر گیا

ذرّے ذرّے کو رہنمائی دی

پَردہ با پَردہ نگاہوں سے اُٹھا آج کی رات

اس کو لطف و آگہی کا اِک نگر لکھا گیا

جو بھی گِرا زمیں پہ اُسی کو اُٹھا لیا

تعلق جوڑ لینا اور پھر محوِ ثنا رہنا