نہ آہٹ ہے نہ پیکر ہے نہ پرچھائیں نہ سایہ ہے
وہ خوشبو کی طرح چُپ چاپ صحراؤں میں اترا ہے
وہ اک تحریر ہے لکھی ہوئی شفاف لفظوں کی
جسے سورج بلا ناغہ تلاوت کرتا رہتا ہے
جبینیں دُھل گئیں لمحوں کی صدیاں جگمگا اٹھیں
وہ بے آواز بادل کی طرح جی بھر کے برسا ہے
میں اکثر سوچتا ہوں خود کو لا کر سامنے اُس کے
یہ کشتی کتنی چھوٹی ہے سمندر کتنا گہرا ہے
چمک اٹھی ہے اُس کی روشنی میرے رگ و پے میں
میں اُس کے پاس رہتا ہوں وہ میرے پاس رہتا ہے
شاعر کا نام :- انجم نیازی
کتاب کا نام :- حرا کی خوشبُو