دولتِ ذکرِ صبح گاہی دی

دولتِ ذکرِ صبح گاہی دی

ہم فقیروں کو بادشاہی دی


بے زبانوں کو بھی زباں بخشی

بے نگاہوں کو خوش نگاہی دی


جو بھی آیا ملے محبت سے

جس کو دی آپؐ نے دعا ہی دی


ہر کسی پر جُھکے اُفق بن کر

ہر کسی کو اُفق نگاہی دی


بے رداؤں کو دی رِدا اپنی

بے گھروں کو جہاں پناہی دی


آپؐ نے سچ کو سچ کہا کھُل کر

صبح نے صبح کی گواہی دی

شاعر کا نام :- انجم نیازی

کتاب کا نام :- حرا کی خوشبُو

دیگر کلام

دیارِ شب کے لیے قریہء سحر کے لیے

مرا ذوقِ سفر محوِ سفر ہے

کر ذکر مدینے والے دا ایہدے چہ بھلائی تیری اے

درودِ پاک سے دل کی طہارت

نمونہ عمل کا حیاتی ہے اُن کی

سرتا پا حِجاب آپ ہیں

کہیں ارضِ مدینہ کے علاوہ مِل نہیں سکتا

کھاندا جگ خیرات نبی دی

مَرَضِ عشق کا بیمار بھی کیا ہوتا ہے

ربِ کونین! ترے نام پہ جھکنا آیا