دیارِ شب کے لیے قریہء سحر کے لیے

دیارِ شب کے لیے قریہء سحر کے لیے

نشانِ پا تِرے ہر ایک رہ گزر کے لیے


درود پڑھ کے پہنچ جاؤں تیرے روضے پر

سواریوں کی ضرورت نہیں سفر کے لیے


تلاشِ حُسن میں کیو نکر اِدھر اُدھر بھٹکوں

تِرا خیال بہت ہے مری نظر کے لیے


محبّت اپنی جب اس دِل کو بخش دی تُو نے

تو ذہن کیوں ہو پریشان مال و زر کے لیے


ہو ناز تیری غلامی پہ جس قدر، کم ہے

کہ اس سے بڑھ کے نہیں کوئی تاج سر کے لیے


اگر خُدا کو بھی مَیں تیرا واسطہ دے دوں

کبھی بھٹک نہیں سکتی دُعا اثر کے لیے


بندھی ہیں جن کی گِرہ میں حضوریاں تیری

وُہ دن سنبھال کے رکھّے ہیں عُمر بھر کے لیے


اِسی بہانے مظفّؔر کو تُو نصیب ہُوا

کہ آہٹیں تِری درکار تھیں گجر کے لیے

شاعر کا نام :- مظفر وارثی

کتاب کا نام :- کعبۂ عشق

دیگر کلام

چڑھیا چن صفر دا جسدم

غارِ حرا کی کالی چٹانیں

جان و دِل یارب ہو قربانِ حبیبِ کبریا

مِری ذات نُوں سوہنیا ں درداں توں

نامِ مُحمد کتنا میٹھا میٹھا لگتا ہے

نعت کا ذوق ملا حرف کی جاگیر ملی

بہجت کا قرینہ بھی اسی در کی عطا ہے

نعت لکھتے ہوئے اِک مدحً سرا کیف میں ہے

کر دو کرم کونین کے والی رحمت عالم ذات تیری ہے

خدا دا نظارا نظارا نبی دا