خدا کے در پہ درِ مصطفےٰؐ سے آیا ہوں

خدا کے در پہ درِ مصطفےٰؐ سے آیا ہوں

میں ابتدا کی طرف انتہا سے آیا ہوں


وہ رنگ جسم پہ ہیں جو کبھی نہ پہنے تھے

دیارِ خوشبو و شہرِ صبا سے آیا ہو ں


چمک رہی ہے ستاروں کی طرح پیشانی

میں انکی سلطنتِ نقش پا سے آیا ہوں


لگائے عشقِ نبیؐ مجھ کو اپنے سینے سے

کہ دوڑتا ہوا مروہ صفا سے آیا ہوں


حضورؐ آپ کے قدموں میں کچھ جگہ مل جائے

میں اپنی ذات کے غارِ حرا سے آیا ہوں


میں آخرت سے بھی آگے کا کر رہا ہوں سفر

درِ نبیؐ نہیں دارالبقا سے آیا ہوں


مری زبان پہ نعتِ رسولؐ واجب تھی

خدا کے حکم نبیؐ کی رضا سے آیا ہوں


مرے مقام سے مجھ کو بلند کر دیجے

میں زندگی کے خطِ اُستوا سے آیا ہوں

شاعر کا نام :- مظفر وارثی

کتاب کا نام :- صاحبِ تاج

دیگر کلام

نہ مِرے سخن کو سخن کہو

ہم جبینوں کو درِ شاہ پہ خم رکھتے ہیں

وہ بھی دل ہے بھلا کوئی دل دوستو

راہی طیبہ دا بُرا بھاویں بھلا ہندا اے

وہ مجسّم شعُور و دانائی

حشر کے دن واجب ٹھہرے گی کس کی شفاعت ان کی ان کی

خسروی کے سامنے نہ سروری کے سامنے

وہ کمالِ حسنِ حضور ہے کہ گمان نقص ذری نہیں

غماں دیاں لگیاں ہویاں نے پالاں یارسول اللہ

مدیحِ شاہِ زمن کا مرید کر رہا ہوں