وہ مجسّم شعُور و دانائی
وہ بہارِ جہانِ زیبائی
اے کہ جس کا ہر اک تمنائی
”اے خوشا وہ رسولِ بطحائی ؐ
جس کے دم سے ہے عالم آرائی “
کون ایسا ہُوا ہے مرحلہ داں
شانِ معراج کس طرح ہو بیاں
مہر و مہ اُنؐ کی منزلوں کے نشاں
” گردِ پا اُن ؐ کی بزمِ کاہکشاں
رہگزر اُنؐ کے چرخِ مینائی “
کس کا احساں ہے دونوں عالم پر
کون لایا ہے مُبتدا کی خبر
کون پہنچا ورائے حدِّ نظر
” شبِ اسریٰ تھا کون گرمِ سفر
کِس نے رفتارِ وقت ٹھہرائی “
کون بھُولے گا ایسے احساں کو
کس نے دی تن پہ برتری جاں کو
کم کیا کِس نے بارِ عصیاں کو
” کس نے بخشے ضعیف انساں کو
زورِ حق ، علم کی توانائی“
وقت کے ساتھ بڑھ رہا تھا مرض
جسم و جاں کے لئے بلا تھا مرض
یہ کسے ہے خبر کہ کیا تھا مرض
” نوعِ انساں کا لادوا تھا مرض
کون تھا جس نے کی مسیحائی “
ظلمتوں میں گھِرا ہُوا انساں
ڈھونڈتا پھر رہا تھا جائے اماں
لیکن اُس وقت روشنی تھی کہاں
”ظلمتِ کفر تھی محیطِ جاں
آپؐ آئے تو روشنی آئی “
مرحمت سب پہ ہی خدا کی ہے
لیکن اُنؐ پر تو انتہا کی ہے
سب کو اک اک صفت عطا کی ہے
” جملہ اوصافِ انبیا کی ہے
ذاتِ سرکار ہی میں یکجائی “
دِل میں آئے کہ لب پہ نام آئے
پئے توصیفِ ذو الکرام آئے
لفظ اب جو بھی زیرِ دام آئے
” مَدحِ خیر البشرؐ میں کام آئے
میری ہر سعئ خامہ فرسائی “
اُنؐ کا مدحت سرا کہو مجھ کو
اب کہو صرف نعت گو مجھ کو
میں پڑھے جاؤں سب سنو مجھ کو
”کیوں نہ قسمت پہ ناز ہو مجھ کو
شاؐہِ بطحا کا ہوں تولّائی “
یہ دُعا تھی حنیف کی راغبؔ
آپ سے خُوش رہیں نبیؐ راغبؔ
آپ کی بات بن گئی راغبؔ
” وہ ؐ کہیں اپنا امتّی راغبؔ
اللہ اللہ عزت افزائی “
شاعر کا نام :- حنیف اسعدی
کتاب کا نام :- ذکرِ خیر الانام