حنیف اسعدی

روح میں تن میں رگ و پے میں اتاروں تجھ کو

عجز کو عرش تک رسائی دوں

اُس ذات پر صفات کی حُجتّ ہوئی تمام

کیا مرتبہ ہے اُس تن عنبر سرشت کا

رُوح بن کر وسعتِ کونین میں زندہ ہیں آپؐ

سر رشتۂ کُن فکاں محمدؐ

اسم لکھّوں کہ اسمِ ذات لکھوں

زباں پہ جب بھی مدینے کی گفتگو آئی

گماں تھے ایسے کہ آثار تک یقیں کے نہ تھے

درُود پہلے پڑھو پھر نبیؐ کا ذِکر کرو

اذنِ طواف لے کے شہِؐ دیں پناہ سے

جو کسی کسی کا نصیب ہے

آپؐ اس طرح مری خلوتِ جاں میں آئے

لبِ گویا کو وہ معراج عطا ہو یا رب

صَلِّ علیٰ کِس حُسن ادا سے دعوت کا آغاز ہُوا

مرحبا ختمِ مُرسلیںؐ آئے

نبیؐ کے ذِکر سے روشن تھے بام و در میرے

حاضری قرض ہے یہ قرض اتاروں کیسے

نگاہِ حق میں مقامِ محمدؐی کیا ہے

کوئی اُنؐ کے بعد نبی ہُوا

میں راہ میں ہوں گنبدِ خضرا ہے نظر میں

کہیں بھٹکے کہیں ٹھہرے سفینہ

بس یہی دو ہیں میرے سخن کے اصُول

اِسی اُمید پہ تنہا چلا ہوں سوئے حرم

اک اک سے کہہ رہی ہے نظر اضطراب میں

ہادئ پاک و خیر البشر آپؐ ہیں

یارب یہ تمنّا ہے کہ نازل ہو وہ ہم پر

دِل سے اوہام مٹے فکر نے رستہ پایا

دونوں ہاتھوں میں ہے اب آپؐ کا داماں آقاؐ

مرے حضُورؐ اُس اوجِ کمال تک پہونچے