صَلِّ علیٰ کِس حُسن ادا سے دعوت کا آغاز ہُوا

صَلِّ علیٰ کِس حُسن ادا سے دعوت کا آغاز ہُوا

ذرّہ ذرّہ کون و مکاں کا آپؐ کا ہم آواز ہُوا


نُورِ یقیں کی دولت لے کر فرشِ زمیں پر آپؐ جو آئے

ایک زمیں کیا کون و مکاں پر حمت کا درباز ہُوا


ایسے گدا بھی آپؐ کے در پر چشمِ فلک نے دیکھے ہیں

تخت سے بڑھ کر طوقِ غلامی جن کے لئے اعزاز ہُوا


کتنے جلوے تھے پسِ پردہ کتنے امر حجاب میں تھے

عرشِ عُلیٰ پر آپؐ کا جانا پردہ درِ ہر راز ہُوا


سب نے سُنا ہے ‘ آپؐ نے دیکھا کیا ہے ورائے کون و مکاں

آپؐ ہیں بس اور کوئی نہیں جو محرمِ حرفِ راز ہُوا


منزلِ جاں سے محفلِ ہُو تک ایک قدم کی راہ نہ تھی

فرش تو یوں بھی زیرِ قدم تھا عرش بھی پا انداز ہُوا


بزمِ جہاں میں کوئی نہ تھا جب‘ تب بھی خد ا تھا مدح سرا

ہستی کے آغاز سے پہلے مِدحت کا آغاز ہُوا

شاعر کا نام :- حنیف اسعدی

کتاب کا نام :- ذکرِ خیر الانام

دیگر کلام

سارا دیکھ لیا سنسار تیرے جیہا اک وی نئیں

دنیا نہیں دیتی تو نہ دے ساتھ ہمارا

کھلے بوہے ویخ کے تیرے دوارے آگئے

پُوچھتے مُجھ سے تُم ہو کیا صاحب

ہے سب سے جُدا سید ابرارؐ کا عالم

چلو دیار نبیﷺ کی جانب

سجود فرض ہیں اظہارِ بندگی کے لئے

در خیر الوریٰ نوں ویکھ آیاں

ذکرِ خیر الانام ہو جائے

باطل کے جب جب بدلے ہیں تیور