روح میں تن میں رگ و پے میں اتاروں تجھ کو

روح میں تن میں رگ و پے میں اتاروں تجھ کو

اور پھر دل کی صدا بن کے پکاروں تجھ کو


ذرّہ ذرّہ تری وسعت کا پتہ دیتا ہے

ہر بُنِ مُو میں زباں ہو تو پکاروں تجھ کو


تیرے مظہر ہیں مری ذات کے زنداں میں اسیر

خود کو پامال کروں اور اُبھاروں تجھ کو


تیرا بندہ ہوں کہ ہوں اپنی غرض کا بندہ

جب کوئی کام نہ آئے تو پکاروں تجھ کو

شاعر کا نام :- حنیف اسعدی

کتاب کا نام :- ذکرِ خیر الانام

دیگر کلام

کر رہے ہیں تیری ثناء خوانی

خوشا وہ دن حرم پاک کی فضاؤں میں تھا

کعبے کی رونق کعبے کا منظر

حاضر ہیں ترے دربار میں ہم

نشاں اسی کے ہیں سب اور بے نشاں وہ ہے

روح میں تن میں رگ و پے میں اتاروں تجھ کو

عجز کو عرش تک رسائی دوں

لبِ گویا کو وہ معراج عطا ہو یا رب

اللہ اللہ ہو فقط وردِ زباں یااللہ

تو کریم ہے تو صبور ہے تو غفور ہے

اے شہنشاہِ عفو و درگزر