نشاں اسی کے ہیں سب اور بے نشاں وہ ہے

نشاں اسی کے ہیں سب اور بے نشاں وہ ہے

چراغ اور اندھیرے کے درمیاں وہ ہے


نمود لالہ و گل میں وہی ہے چہرہ نما

شجر شجر پہ لکھا حرفِ داستاں وہ ہے


جبین شمس و قمر اس کے نور سے تاباں

سنہری دھوپ ہے وہ حسن کہکشاں وہ ہے


اسی کی ذات کے ممنون خدوخال حیات

کہ اور کون ہے صورت گر جہاں وہ ہے


ہر اک اُفق پہ اسی کا دوام روشن ہے

جو شے فانی ہے بس ایک جاوداں وہ ہے


کیا ہے جرم سے پہلے ہی اہتمام کرم

چراغ رحمت آقا میں ضو فشاں وہ ہے


اسی کی یاد لہو سے کلام کرتی ہے

ہے جس کے ذکر سے آباد شہر جاں وہ ہے


سکوت نیم شبی میں پکارتا ہوں اس

کہ میں ہوں درد کی دستک در اماں وہ ہے


زبان اشک سے مانگو دعائیں بخشش کی

بڑا رحیم ، نہایت ہی مہرباں وہ ہے


اسی کی مدح میں لو دے رہے ہیں لفظ صبیحؔ

سخن کا نور ہے وہ لذّت بیاں وہ ہے

کتاب کا نام :- کلیات صبیح رحمانی

دیگر کلام

حمد و ثنا سے بھی کہیں اعلیٰ ہے تیری ذات

کر رہے ہیں تیری ثناء خوانی

خوشا وہ دن حرم پاک کی فضاؤں میں تھا

کعبے کی رونق کعبے کا منظر

حاضر ہیں ترے دربار میں ہم

نشاں اسی کے ہیں سب اور بے نشاں وہ ہے

روح میں تن میں رگ و پے میں اتاروں تجھ کو

عجز کو عرش تک رسائی دوں

لبِ گویا کو وہ معراج عطا ہو یا رب

اللہ اللہ ہو فقط وردِ زباں یااللہ

تو کریم ہے تو صبور ہے تو غفور ہے