تو کریم ہے تو صبور ہے تو غفور ہے

تو کریم ہے تو صبور ہے تو غفور ہے

مجھے معصیت پہ عبور ہے تو غفور ہے


تری عظمتوں کا شمار کیسے کرے کوئی

تو ورائے فہم و شعور ہے تو غفور ہے


میں ہوں عیب کار ، سیار رُو ، تو بڑا غنی

مرا ہر قدم پہ قصور ہے تو غفور ہے


میں ہوں معترف مرا جرم ہے مجھے بخش دے

تو حسیبِ یومِ نشور ہے تو غفور ہے


مجھے اُمتّی کیا اپنے خاص حبیبؐ کا

مجھے اس کرم پہ غرور ہے تو غفور ہے


میں سیاہ کار ہوں بے عمل بڑا ناسمجھ

مجھے صرف اتنا شعور ہے تو غفور ہے


مری ساری عمر گزر گئی تو خبر ہوئی

تیری بندگی میں سرور ہے تو غفور ہے


ہوئے مطمئن مرے قلب و جاں ترے ذکر سے

ترا ذکر جامِ طہور ہے تو غفور ہے

شاعر کا نام :- اشفاق احمد غوری

کتاب کا نام :- صراطِ خلد

دیگر کلام

نشاں اسی کے ہیں سب اور بے نشاں وہ ہے

روح میں تن میں رگ و پے میں اتاروں تجھ کو

عجز کو عرش تک رسائی دوں

لبِ گویا کو وہ معراج عطا ہو یا رب

اللہ اللہ ہو فقط وردِ زباں یااللہ

تو کریم ہے تو صبور ہے تو غفور ہے

اے شہنشاہِ عفو و درگزر

الہی حمد کہنے کا ہنر دے

کس سے مانگیں کہاں جائیں کس سے کہیں

خدائے کون و مکاں سب کا پاسباں تُو ہے

کر مرے تِشنہ ہنر پر بھی کرم یا اللہ