کس سے مانگیں کہاں جائیں کس سے کہیں

کس سے مانگیں کہاں جائیں کس سے کہیں اور دُنیا میں حاجت روا کون ہے

سب کا داتا ہے تُو ، سب کو دیتا ہے تُو ، تیرے بندوں کا تیرے سِوا کون ہے


کون مقبول ہے ، کون مَردُود ہے ، بےخبر! کیا خبر تجھ کو، کیا کون ہے

جب تُلیں گے عمل سب کے میزان پر، تب کھُلے گا کہ کھوٹا کھرا کون ہے


کون سُنتا ہے فریاد مظلُوم کی ، کس کے ہاتھوں میں کُنجی ہے مقسُوم کی

رزق پر کس کے پَلتے ہیں شاہ و گدا، مسند آرائے بزمِ عطا کون ہے


اولیا تیرے محتاج اے ربِّ کُل ! تیرے بندے ہیں سب انبیاء و رُسُل

اِن کی عزّت کا باعث ہے نسبت تری، اِن کی پہچان تیرے سِوا کون ہے


میرا مالک مِری سُن رہا ہے فُغاں ، جانتا ہے وہ خاموشیوں کی زُباں

اب مِری راہ میں کوئی حائل نہ ہو، نامہ بر کیا بَلا ہے ، صبا کون ہے


ابتدا بھی وہی ، انتہا بھی وہی ، ناخدا بھی وہی ہے ، خدا بھی وہی

جو ہے سارے جہانوں میں جلوہ نُما ، اُس اَحَد کے سَوا دُوسرا کون ہے


وہ حقائق ہوں اَشیا کے یا خُشک و تَر ، فہم و ادراک کی زد میں ہیں سب ، مگر

ما سِوا، ایک اُس ذاتِ بے رنگ کے، فہم و ادراک سے ماورٰی کون ہے


انبیا، اولیا، اہلِ بیتِ نبیؐ ، تابعین و صحابہ پہ جب آ بنی

گِر کے سجدے میں سب نے یہی عرض کی ، تُو نہیں ہے تو مشکل کُشا کون ہے


اہلِ فکرو نظر جانتے ہیں تجھے ، کچھ نہ ہونے پہ بھی مانتے ہیں تجھے

اے نصیرؔ! اِس کو تُو فضلِ باری سمجھ، ورنہ تیری طرف دیکھتا کون ہے

شاعر کا نام :- سید نصیرالدیں نصیر

کتاب کا نام :- فیضِ نسبت

دیگر کلام

لبِ گویا کو وہ معراج عطا ہو یا رب

اللہ اللہ ہو فقط وردِ زباں یااللہ

تو کریم ہے تو صبور ہے تو غفور ہے

اے شہنشاہِ عفو و درگزر

الہی حمد کہنے کا ہنر دے

خدائے کون و مکاں سب کا پاسباں تُو ہے

کر مرے تِشنہ ہنر پر بھی کرم یا اللہ

الٰہی کھول دے ہم پر درِ آفاقِ مدحت

متاع ِ اہلِ نظر لا الہ اللہ

روبروئے حرم تیری توفیق سے