فیضِ نسبت

کس سے مانگیں کہاں جائیں کس سے کہیں

خدائے کون و مکاں سب کا پاسباں تُو ہے

دیدنی ہے جلوہ دربارِ عبدُالمطّلِب

بندھی حجاز میں ایسی ہَوائے عبدؒ اللہ

ختم الرّسُل ہیں نُورِ نظر جانِ آمنہ

نذرِ محبوبِ خدا جانِ ابُو طالب ہے

تجھے مِل گئی اک خدائی حلیمہ

مقصُود ہے اصل میں تو اَزواج کی ذات

قابلِ دید ہیں سب ماہ لقا لڑکے ہیں

نازشِ صدق و صفا تُم پر سلام

خلافتِ شہِؐ کی ابتدا صدّیق

مُسّلَم ہے محمؐد سے وفا صدّیقِ اکبر کی

اسلام کی شوکت صدفِ دیں کا گُہَر ہے

مثالی ہے جہاں میں زندگی فاروقِ اعظم کی

اللہ اللہ یہ تھی سیرتِ عثمان غنی

السّلام اے نوعِ انساں را نویدِ فتحِ باب

کیوں عقیدت سے نہ میرا دل پُکارے یا علی

گنبدِ آفاق میں روشن ہُوئی شمعِ نجات

منظر فضائے دَہر میں سارا علی کا ہے

کیوں کر نہ ہوں معیارِ سخا فاطمہ زہرا

زمیں سے تا بہ فلک ہر طرف صدائے حسن

عارف بود کسے کہ دلش نسبتِ وِلا

سِبطِ شہِؐ دیں نازِ حسن پیکرِ تنویر

حُسین گُلشنِ تطہیر کی بہارِ مُراد

لاکھ نالہ و شیون ایک چشمِ تر تنہا

لافِ نَبرد سبطِ پیمبرؐ کے سامنے

زبان حال سے کہتی ہے کربلا کی زمیں

تھا مِہر صِفَت قافلہ سالار کا چہرہ

ہو گیا کس سے بھرا خانہء زہرا خالی

آگ سی دل میں لگی آنکھ سے چھلکا پانی